حضرت خواجہ ابو اسحاق شامی
رحمتہ اللہ علیہ
آپ کا اسم گرامی حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ اور لقب شرف الدین تھا ۔ ظاہری اور باطنی علوم میں ممتاز تھے۔زہد و ریاضت میں بے مثال ، خلق سے بے نیاز اور خالق سے ہی ہمراز تھے۔ حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ درویشوں سے محبت کرتے تھے اور اولیا اللہ میں ممتاز مقام رکھتے تھے۔
حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ نے خرقہ خلافت حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ سے پایا تھا۔ ’’المعراج الفقراء جوع‘‘ کے مصداق ہمیشہ روزہ سے رہتے اور سات دن بعد افطار کیا کرتے۔ مرید ہونے سے پہلے چالیس دن تک استخارہ کرتے رہے۔ ہاتف غیبی نے علو دینوری رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری کا اشارہ دیا تو ان کے خدمت میں حاضر ہوئے۔ سات سال بعد تکمیل کو پہنچے اور خلافت عطا ہوئی .
حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ کے پیرو مرشد حضرت خواجہ ممشاد علوی دینوری رحمتہ اللہ علیہ نے آپ کو یہ بشارت دی کہ اہل چشت کے امام بنو گے۔ چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنے وطن چشت واپس آئے تو ’’قطب چشتیہ ‘‘کے لقب سے مشہور ہوئے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو سماع سے بے حد لگائو تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی مجلس میں آنے والے ہر شخص پر وجد طاری رہا کرتا۔
ایک با ر قحط پڑ گیا ۔ ہزاروں لوگ حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور باران رحمت کےلیے دعا طلب کی ۔ حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ نے محفل سماع برپا کی جب آپ وجد میں آئے تو آسمان پر بادل گھر آئے اور اس قدر بارش ہوئی کہ لوگ اس کے روکنے کی دعا ئیں مانگنے لگے۔لوگ دوبارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور بارش روکنے کی استدعا کی۔ حضرت شیخ ابو اسحق شامی رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا اگر دل بھر گیا ہے تو بارش رک جائے گی۔ جس کے بعد بارش رک گئی۔
آپ اس دار فانی سے ۳۲۹ ہجری کو رخصت ہوئے ۔آپ کامزار مبارک شہر عکہ شام میں ہے۔سیر الاقطاب کے مصنف نے لکھا ہےکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے وصال سے لیکر آج تک آپؒ کے مزار پر ایک چراغ روشن ہے جوکبھی نہیں بجھا یہ چراغ شام سے صبح تک روشن رہتا ہے۔ باد و باراں کا کئی بار طوفان آیا مگر رات کے وقت کبھی اس چراغ کو گل نہیں کر سکا۔